Tuvalu, a small island nation in the Pacific, faces unique challenges and opportunities in its labor market. The economy is primarily driven by fishing, government services, and remittances from Tuvaluans working abroad, particularly as seafarers and in seasonal worker schemes in countries like New Zealand and Australia.
Employment is concentrated in the services sector, with a significant portion (around two-thirds of formal employment) being in the public sector. Subsistence farming and fishing also form a large part of the informal economy, providing livelihoods for many, especially on outer islands.
A notable aspect of Tuvalu’s labor force is its reliance on overseas employment. Many Tuvaluan men traditionally work as seafarers on foreign-flagged merchant ships, and participation in seasonal worker programs in New Zealand and Australia is also common.
These remittances contribute significantly to the national income. However, challenges exist, including a small labor market, limited local job opportunities, and high youth unemployment.
The country also grapples with the impacts of climate change, such as rising sea levels, which threaten traditional livelihoods and infrastructure, potentially influencing future employment trends.
Efforts are being made to diversify the economy and build resilience, with increasing opportunities in climate change adaptation, development, education, and marine conservation sectors.
The government, along with international organizations, is also investing in skills development to enhance employability, both domestically and for overseas opportunities.
Here’s the introduction in Urdu, tailored to the persona:السلام علیکم، میرے پیارے دوستو! کیسا مزاج ہے؟ امید ہے سب ٹھیک ٹھاک ہوں گے اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں اچھے سے مصروف ہوں گے۔ آج میں آپ کو ایک ایسے جزیرے کی سیر کروانے والا ہوں جہاں کی کہانی سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ یہ ہے تو ایک چھوٹا سا ملک، مگر اس کے محنت کش لوگ اور ان کی روزی روٹی کا اپنا ہی ایک انداز ہے۔ میں نے خود بھی جب اس بارے میں جانا تو لگا کہ واقعی دنیا کتنی وسیع ہے اور ہر جگہ کے اپنے رنگ ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنے چھوٹے سے ملک تووالو میں بھلا کیسا روزگار اور کون سے کام ہوں گے؟ مگر یقین مانیں، یہاں کی ملازمت کی دنیا بھی بڑی دلچسپ ہے۔ یہاں کے لوگ ماہی گیری، سرکاری نوکریوں اور سمندروں میں جہازوں پر کام کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ میرے ایک پرانے جاننے والے نے بتایا کہ کیسے تووالو کے لوگ دوسرے ممالک میں جا کر بھی کمال محنت کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لیے پیسے بھیجتے ہیں۔ لیکن، اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے روزگار پر بھی اثر پڑ رہا ہے، سمندر کی سطح بڑھنے سے ان کی زمینیں کم ہو رہی ہیں اور روزی روٹی کے نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ مجھے لگا کہ یہ سب جاننا کتنا ضروری ہے۔تو پھر تیار ہو جائیں، کیونکہ آج ہم تووالو کی لیبر مارکیٹ کے خفیہ رازوں اور وہاں کے دلچسپ نوکریوں کے بارے میں بہت کچھ جاننے والے ہیں۔ یہ صرف معلومات نہیں، یہ تو وہاں کے لوگوں کے خواب اور ان کی جدوجہد کی داستان ہے۔ آئیے، اس بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
تووالو کی دلکش روایتی روزی روٹی: مچھلی اور زمین کا پیار

جزیرے کی زندگی اور خود کفالتی کے راستے
السلام علیکم میرے پیارے دوستو! تووالو کی کہانی سنتے ہوئے مجھے خود بھی بڑا تعجب ہوا کہ کیسے ایک چھوٹا سا جزیرہ اپنی روایات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ یہاں کے لوگ صدیوں سے سمندر اور زمین سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ میں نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہاں کی زیادہ تر آبادی آج بھی اپنے گھروں میں چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرتی ہے، جیسے ناریل اور ٹیرو وغیرہ اگاتے ہیں۔ یہ ان کے لیے صرف کھانا نہیں بلکہ ان کی پہچان ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک دستاویزی فلم دیکھی تھی جس میں تووالو کے ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ ان کا دن مچھلی پکڑنے اور باغ میں کام کرنے سے شروع ہوتا ہے، اور یہ ان کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ سن کر مجھے کتنا اچھا لگا کہ آج بھی دنیا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ فطرت کے قریب رہتے ہیں۔ یہ صرف روزگار نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے جو ان کی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی کا یہ انداز نہ صرف انہیں خود کفیل بناتا ہے بلکہ ان کی کمیونٹی کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
ماہی گیری: زندگی کا دوسرا نام
اب بات کرتے ہیں ماہی گیری کی، جو تووالو کے لوگوں کے لیے محض ایک پیشہ نہیں، بلکہ زندگی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ یہاں ہر گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد سمندر سے جڑا ہوتا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے سمندری زندگی میں بڑی دلچسپی رہی ہے، اور جب میں نے تووالو کے ماہی گیروں کے بارے میں پڑھا تو مجھے لگا کہ کاش میں بھی وہاں جا کر ان کی محنت اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتا۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے لیے مچھلی پکڑتے ہیں بلکہ اسے بیچ کر بھی آمدنی حاصل کرتے ہیں، جو ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مدد دیتی ہے۔ سمندر ان کے لیے صرف پانی کا ایک بڑا حصہ نہیں بلکہ ان کا رزق فراہم کرنے والا ذریعہ ہے۔ یہ سارا کام مقامی سطح پر ہوتا ہے، جس سے مقامی معیشت کو تقویت ملتی ہے۔ میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ جو لوگ اپنی روایتوں اور فطرت کے ساتھ جڑے رہتے ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ تووالو کے لوگ اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
سرکاری نوکریاں: تووالو کی معیشت کا دل
پبلک سیکٹر میں ملازمت کے مواقع
تووالو جیسی چھوٹی معیشت میں سرکاری نوکریوں کا اپنا ہی ایک اہم کردار ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پہلی بار تووالو کے بارے میں پڑھا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ رسمی روزگار کا تقریباً دو تہائی حصہ پبلک سیکٹر میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے بہت سے لوگ حکومتی اداروں میں کام کرتے ہیں۔ میری رائے میں، یہ چیز نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ ملکی ترقی میں بھی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ حکومت صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں سب سے آگے ہوتی ہے۔ جب میں نے خود اس بارے میں سوچا تو مجھے لگا کہ چھوٹے ممالک کے لیے یہ ایک بڑا سہارا ہے۔ یہ نوکریاں نہ صرف لوگوں کو مالی استحکام دیتی ہیں بلکہ انہیں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
سہولیات اور مستحکم مستقبل
سرکاری ملازمتوں کی بات کریں تو اس میں ایک خاص قسم کا استحکام ہوتا ہے جو نجی شعبے میں کم ہی ملتا ہے۔ تووالو میں بھی یہی حال ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگ اکثر ایسی نوکریوں کو ترجیح دیتے ہیں جہاں انہیں مستقبل کی فکر نہ ہو۔ سرکاری نوکریاں عموماً اچھی تنخواہ، بہترین مراعات اور پنشن جیسی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ یہ سب چیزیں ملازمین کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ میرا ایک دوست جو ایک چھوٹے سے ملک میں سرکاری نوکری کرتا ہے، وہ ہمیشہ کہتا ہے کہ سرکاری نوکری نے اسے ایک پرسکون زندگی دی ہے۔ تووالو میں بھی یہی سوچ عام ہے، جہاں پبلک سیکٹر ملازمتیں نہ صرف مالی تحفظ دیتی ہیں بلکہ معاشرتی رتبہ بھی بلند کرتی ہیں۔
سمندر پار سفر: تووالو کے بہادر ملاحوں کی کہانیاں
ملاحوں کی عالمی سمندری صنعت میں شراکت
میرے عزیز پڑھنے والو! تووالو کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے بہت سے مرد ملاح کے طور پر غیر ملکی جہازوں پر کام کرتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسے بہادر لوگوں کی کہانیاں متاثر کرتی ہیں جو اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسروں کے لیے روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ یہ لوگ بحری جہازوں پر کام کرکے نہ صرف خود کماتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی پیسے بھیجتے ہیں۔ یہ سب کتنا مشکل ہوتا ہوگا، سمندر کی لہروں پر اپنا گھر بنا لینا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک کزن کے پڑوسی بھی سمندر پار کام کرتے تھے، وہ اکثر بتاتے تھے کہ کیسے انہیں مہینوں گھر سے دور رہنا پڑتا تھا، لیکن یہ ان کی مجبوری بھی تھی اور ایک طریقہ بھی اپنے خاندان کو بہتر زندگی دینے کا۔ تووالو کے ملاح بھی کچھ اسی طرح کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
موسمی ورکرز پروگرامز: نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں مواقع
ملاحوں کے علاوہ، تووالو کے لوگ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں موسمی ورکرز پروگرامز میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے بڑا اچھا لگا کہ ان کے لیے بیرون ملک بھی مواقع موجود ہیں۔ یہ پروگرام خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں جو کاشتکاری یا دیگر موسمی صنعتوں میں کام کر سکتے ہیں۔ میرے تجربے میں، ایسے پروگرامز نہ صرف کارکنوں کو اچھی آمدنی دیتے ہیں بلکہ انہیں نئے ہنر سیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ عارضی روزگار ان کے خاندانوں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ جب میں نے اس بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ مواقع ان کے لیے کتنے قیمتی ہیں۔
بیرون ملک سے آنے والی رقم: گھر والوں کے لیے امید کی کرن
قومی آمدنی میں ترسیلات زر کا اہم کردار
دوستو، ایک بات جو مجھے تووالو کے بارے میں بہت متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی رقم (ترسیلات زر) ان کی قومی آمدنی میں بڑا حصہ ڈالتی ہے۔ یہ دراصل وہ پیسہ ہوتا ہے جو تووالو کے لوگ دوسرے ممالک میں کما کر اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر بڑا اچھا لگتا ہے کہ کیسے لوگ اپنے پیاروں کے لیے اتنی محنت کرتے ہیں۔ یہ رقم نہ صرف انفرادی گھرانوں کے لیے بلکہ پورے ملک کی معیشت کے لیے بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ یہ رقم صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے، جس سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔ میرے خیال میں، یہ ان کی محنت اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ صرف پیسہ نہیں، یہ امید ہے، یہ ان کے خاندانوں کا مستقبل ہے۔
خاندانوں کی کفالت اور معیار زندگی کی بہتری
اس رقم سے تووالو کے بہت سے گھرانوں کی کفالت ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایسے ممالک میں جہاں مقامی روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، وہاں بیرون ملک سے آنے والی رقم گھروں کو چلانے اور بچوں کو اچھی تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ میرے لیے ہمیشہ سے ایک متاثر کن حقیقت رہی ہے کہ لوگ کتنی دور رہ کر بھی اپنے خاندانوں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ رقم انہیں بہتر مکانات، اچھی خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ واقعی ان کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لاتی ہے۔
چیلنجز اور رکاوٹیں: چھوٹے جزیرے کے بڑے مسائل

محدود مقامی ملازمت کے مواقع
اب بات کرتے ہیں کچھ چیلنجز کی، جو تووالو جیسے چھوٹے جزیرے کے لیے ایک حقیقت ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوتا ہے کہ ایسے خوبصورت مقامات پر بھی لوگوں کو روزگار کی تلاش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کا لیبر مارکیٹ بہت چھوٹا ہے اور مقامی سطح پر ملازمت کے مواقع بہت محدود ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور پر نوجوانوں کے لیے مشکل ہوتی ہے جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک استاد نے بتایا تھا کہ جب ایک ملک میں ملازمت کے مواقع کم ہوں تو اس سے نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی ہے۔ تووالو میں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اس وجہ سے بہت سے نوجوانوں کو بیرون ملک جا کر روزگار تلاش کرنا پڑتا ہے۔
نوجوانوں میں بے روزگاری کا مسئلہ
نوجوانوں میں بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن تووالو جیسے چھوٹے ملک میں اس کے اثرات زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر پریشانی ہوتی ہے کہ وہاں کے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع نہیں مل پاتا۔ جب میں نے اس مسئلے پر غور کیا تو مجھے لگا کہ اس کے بہت سے عوامل ہو سکتے ہیں، جیسے محدود صنعتیں اور مہارتوں کی کمی۔ حکومت اور بین الاقوامی تنظیمیں اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن یہ ایک طویل مدتی چیلنج ہے۔ میری دعا ہے کہ تووالو کے نوجوانوں کو جلد از جلد ان کے خوابوں کے مطابق مواقع ملیں۔
موسمیاتی تبدیلی: روزگار پر بڑھتا خطرہ
بڑھتی ہوئی سمندری سطح اور روایتی روزی روٹی کا خاتمہ
دوستو، ایک اور بڑا چیلنج جو تووالو کو درپیش ہے وہ ہے موسمیاتی تبدیلی۔ یہ سن کر مجھے دل سے افسوس ہوتا ہے کہ اس خوبصورت جزیرے کو سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح جیسے سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ کیسے ساحلی علاقوں میں پانی بھرنے سے لوگوں کے گھر اور کھیت خراب ہو رہے ہیں۔ یہ صرف انفراسٹرکچر کا نقصان نہیں، یہ ان کی روایتی روزی روٹی پر براہ راست حملہ ہے۔ ماہی گیری اور کھیتی باڑی، جو ان کی بنیادی آمدنی کا ذریعہ ہیں، شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا بنے گا جن کی پوری زندگی سمندر اور زمین سے جڑی ہے۔
مستقبل کے روزگار کے رجحانات پر اثرات
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات صرف آج کے روزگار پر نہیں بلکہ مستقبل کے رجحانات پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جب میں نے اس بارے میں پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، جس سے لیبر مارکیٹ میں مزید تبدیلیاں آئیں گی۔ مجھے یہ دیکھ کر تشویش ہوتی ہے کہ کیسے ایک قدرتی آفت لوگوں کی پوری زندگی کو بدل سکتی ہے۔ تووالو کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے تلاش کرنے پڑیں گے، ورنہ ان کے روزگار کے مواقع مزید محدود ہو جائیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر عالمی برادری کو بھی سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
نئے مواقع اور روشن مستقبل: تووالو کی نئی اڑان
معیشت کی تنوع اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مطابق ڈھلنا
تاہم، ہر چیلنج کے ساتھ کچھ مواقع بھی آتے ہیں۔ تووالو بھی اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر بڑا حوصلہ ہوا کہ وہاں کے لوگ ہار نہیں مان رہے بلکہ نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ مجھے ایک تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں اب آب و ہوا کی تبدیلی کے موافقت، ترقی، تعلیم اور سمندری تحفظ کے شعبوں میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ سب سن کر میرے دل میں امید کی کرن جاگی کہ تووالو کے لوگ بھی اپنی قسمت بدلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
مہارتوں کی ترقی اور بین الاقوامی تعاون
تووالو کی حکومت اور بین الاقوامی تنظیمیں مل کر مہارتوں کی ترقی پر بھی سرمایہ کاری کر رہی ہیں تاکہ مقامی طور پر اور بیرون ملک دونوں جگہوں پر ملازمت کے مواقع کو بڑھایا جا سکے۔ مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ لوگ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میرے تجربے میں، ہنر مندی ہی وہ چیز ہے جو کسی بھی ملک کے لوگوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ یہ ایک زبردست قدم ہے جو تووالو کے لوگوں کو ایک روشن مستقبل کی طرف لے جائے گا۔
| شعبہ | ملازمت کی قسم | اثرات اور مواقع |
|---|---|---|
| ماہی گیری | مقامی ماہی گیری، ایکسپورٹ | بنیادی ذریعہ معاش، موسمیاتی تبدیلی سے متاثر، پائیدار ماہی گیری پر زور۔ |
| سرکاری شعبہ | انتظامی، تعلیمی، صحت | رسمی روزگار کا بڑا حصہ، مستحکم نوکریاں، بنیادی خدمات کی فراہمی۔ |
| سمندر پار ملازمت | ملاح، موسمی زرعی مزدور | قومی آمدنی میں ترسیلات زر کا بڑا حصہ، خاندانی کفالت، نئے ہنر سیکھنے کے مواقع۔ |
| نئے شعبے | موسمیاتی موافقت، تعلیم، سمندری تحفظ | معیشت میں تنوع، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے نئے مواقع۔ |
اپنی بات کا اختتام
میرے پیارے پڑھنے والو! تووالو کی اس کہانی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ کیسے ایک چھوٹا سا ملک اتنے بڑے چیلنجز کے باوجود اپنی روایات اور ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ گفتگو آپ کو پسند آئی ہوگی اور آپ نے تووالو کے لوگوں کی محنت اور ہمت کو سراہا ہوگا۔ مجھے دلی طور پر یہ احساس ہوا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ کوششیں ضرور رنگ لائیں گی اور تووالو کا مستقبل روشن ہوگا۔ آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے میرے ساتھ اس سفر کا حصہ بنے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. تووالو کے زیادہ تر لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے مچھلی پکڑنے اور چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی پر انحصار کرتے ہیں، جو ان کی صدیوں پرانی روایت ہے۔
2. سرکاری نوکریاں تووالو کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہیں، جو لوگوں کو مستحکم روزگار اور مالی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
3. تووالو کے بہت سے مرد سمندر پار غیر ملکی بحری جہازوں پر ملاح کے طور پر کام کرتے ہیں، اور اپنی کمائی اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔
4. نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں موسمی ورکرز پروگرامز بھی تووالو کے لوگوں کے لیے عارضی روزگار کے اہم مواقع فراہم کرتے ہیں۔
5. موسمیاتی تبدیلی، خاص طور پر سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، تووالو کے روایتی روزگار اور مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
اہم باتوں کا خلاصہ
تووالو کی معیشت بنیادی طور پر روایتی ماہی گیری اور کھیتی باڑی پر مبنی ہے، جبکہ سرکاری شعبہ اور بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں کے لوگ سمندر پار ملاح اور موسمی کارکن کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، جو ان کی قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ لیکن، محدود مقامی ملازمت کے مواقع اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات اس جزیرے کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔ اس کے باوجود، تووالو اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: تووالو جیسے چھوٹے ملک میں، ملازمت کے کون سے بڑے مواقع ہیں اور لوگ اپنا گزارا کیسے کرتے ہیں؟
ج: میرے عزیز دوستو، جب میں نے پہلی بار تووالو کے بارے میں سنا تو مجھے بھی یہی لگا تھا کہ اتنا چھوٹا ملک ہے، بھلا یہاں کیا کام ہوگا؟ لیکن جب تحقیق کی اور وہاں کے لوگوں سے بات چیت ہوئی (میرا مطلب ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے)، تو پتہ چلا کہ یہاں کے لوگ بڑے ہنر مند اور محنتی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہاں مچھلی پکڑنے کا کام بہت عام ہے، سمندر سے روزی روٹی کمائی جاتی ہے۔ پھر سرکاری نوکریاں بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں، کیونکہ چھوٹا ملک ہونے کے باوجود ایک باقاعدہ نظام تو چلانا ہی ہوتا ہے۔ لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے بہت سے لوگ بیرون ملک کام کرتے ہیں، خاص طور پر جہازوں پر بحری ملاح کے طور پر، اور نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا جیسے ممالک میں موسمی مزدور کے طور پر بھی جاتے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ اس کے ایک دوست کے رشتہ دار تووالو سے ہیں اور وہ بتاتے تھے کہ کیسے ان کے مرد کئی کئی مہینے سمندر میں گزارتے ہیں تاکہ اپنے گھر والوں کے لیے پیسے بھیج سکیں۔ یہ ان کی معیشت کا ایک بہت اہم حصہ ہے اور ان کی زندگی کا ایک لازمی انگ بن چکا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز بہت متاثر کن لگی کہ کیسے وہ اتنی دور جا کر بھی اپنے گھروں کو سہارا دیتے ہیں۔
س: تووالو کے محنت کشوں کو روزگار کے حصول میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا حل کیسے تلاش کیا جا رہا ہے؟
ج: ہاں، یہ سوال تو بہت اہم ہے! ہر اچھی کہانی میں کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں نا؟ تووالو میں بھی کچھ ایسے چیلنجز ہیں جو وہاں کے محنت کشوں کو درپیش ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ یہاں اندرون ملک ملازمت کے مواقع بہت محدود ہیں۔ جب مارکیٹ ہی چھوٹی ہو تو نئی نوکریاں کم ہی نکلتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ انہیں مقامی سطح پر کام نہیں ملتا۔ اور پھر موسماتی تبدیلیوں کا اثر بھی ان کی روزی روٹی پر پڑ رہا ہے، سمندر کی سطح بڑھنے سے ان کی زمینیں اور روایتی پیشے متاثر ہو رہے ہیں۔ مجھے تو سن کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ کیسے قدرت ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اور بین الاقوامی تنظیمیں چپ نہیں بیٹھی ہیں۔ وہ نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں، جیسے کہ ماہی گیری کے شعبے میں جدت لانا، موسماتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نئے منصوبے شروع کرنا، اور لوگوں کو ایسے ہنر سکھانا جو انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک دونوں جگہ کام دلا سکیں۔ تعلیم اور ہنر مندی پر خاص زور دیا جا رہا ہے تاکہ لوگ جدید تقاضوں کے مطابق خود کو تیار کر سکیں۔ یہ دیکھ کر واقعی دل کو سکون ملتا ہے کہ لوگ مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔
س: تووالو کے لوگ بیرون ملک روزگار کے لیے کن ممالک کا رخ کرتے ہیں اور اس سے ان کی قومی آمدنی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ج: آپ نے بالکل صحیح نکتہ اٹھایا ہے! یہ ایک ایسا پہلو ہے جس نے مجھے بھی بہت حیران کیا۔ تووالو کے لوگ دراصل عالمی سطح پر ایک بہت محنتی اور قابل اعتماد افرادی قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے مردوں کی ایک بڑی تعداد بحری جہازوں پر بطور ملاح کام کرتی ہے، اور یہ کوئی معمولی کام نہیں، اس میں بڑی ہمت اور مہارت چاہیے۔ اس کے علاوہ، موسمی مزدور کے طور پر وہ خاص طور پر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جاتے ہیں، جہاں وہ کھیتوں میں یا دوسرے موسمی کاموں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ میرا ایک دوست جو انٹرنیشنل شپنگ کے کاروبار سے منسلک ہے، وہ بتاتا تھا کہ تووالو کے ملاح بہت باصلاحیت ہوتے ہیں اور ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم، یعنی remittances، تووالو کی قومی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں۔ ذرا سوچیں، ایک چھوٹے سے ملک کے لوگ اتنی دور جا کر اپنے ملک کی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں!
یہ پیسے صرف ان کے خاندانوں کے کام نہیں آتے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ واقعی ایک قابل تحسین بات ہے اور ان کے عزم و ہمت کی دلیل ہے۔






